آ نحضرت ﷺ فرمایا کرتے تھے، لوگو! جو کچھ میں جانتا ہوں اگر تم
جانتے ہوتے تو تم کو ہنسی کم اور رونا زیادہ آتا۔ ایک دفعہ آپ ﷺ نے نہایت موثر طرز سے خطبہ میں فرمایا۔
"اے معشرِ قریش! اپنی آپ خبر لو، میں تم کو بھی خدا سے نہیں بچا
سکتا۔ اے صفیہ! رسولِ خدا کی پھوپھی! میں تجھ کو بھی خدا سے نہیں بچا سکتا۔ اے
محمدﷺ کی بیٹی فاطمہ! میں تجھ کو بھی خدا سے
نہیں بچا سکتا۔"
عبداللہ
بن شخیر ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ میں ایک بار خدمتِ نبوی ﷺ میں حاضر ہوا، دیکھا کہ آپ ﷺ نماز میں مشغول ہیں۔ آنکھوں سے آنسو جاری ہیں، روتے روتے اس قدر ہچکیاں
بندھ گئی تھیں کہ معلوم ہوتا تھا کہ چکی چل رہی
ہے یا ہانڈی ابل رہی ہے۔
ایک بار آپ ﷺایک جنازہ میں شریک تھے، قبر کھودی جا رہی تھی،
آپ ﷺ قبر کے کنارے بیٹھ گئے۔ یہ منظر دیکھ کر آپ ﷺ پر اس قدر رقت طاری ہوئی کہ آنسووں سے زمین نم ہو گئی ۔ پھر فرمایا، بھائیو! اس دن کے لیے سامان رکھو۔
Numan bin Basheer ``` narrates from Rasool-Allah ``` , "Duaa is ibadat." Then He ``` read this ayat ``` . (Tirmizi, Abu Dawod, and Ibn-e-Majah)
Abu Darda ``` narrated that Rasool Allah ``` said, “Should I not tell you of such a thinga which are the best and purest deeds in the court of your Lord, high in ranks (darajat), better for you then spending gold and silver (in Allah’s path), and better than slaying the neck of the enemy during war? The Sahaba said, “Yes, Oh Rasool Allah! ``` .” He ``` said, “It is Zikr of Allah.” (Tirmizi)
حضرت عمر بن عبدالعزیز جس دن مسندِ خلافت پر بیٹھے اس دن وہ رات تک بیعت اور
خلیفہ سلیمان کی تہجیز و تکفین میں مشغول رہے۔ حتی کہ رات کو بھی سونے کا موقعہ نہ
مل سکا۔ دوسرے روز صبح کو قیلولہ کا ارادہ کیا تو آپ کے فرزند عبدالملک نے کہا،
حقداروں کے حقوق دوسروں کے ہاتھ میں ہیں اور آپ آرام کرنا چاہتے ہیں۔
آپ نے فرمایا، چند لمحے قیلولہ کر لوں، بعد نمازِ ظہر اس طرف توجہ کروں گا۔
لڑکے نے کہا، آپ کو اپنی زندگی اس وقت تک باقی رہنے
کا وثوق ہے؟ یہ سن کر آپ رو پڑے اور لڑکے کی پیشانی پر بوسہ دے کر اس کی دینی اور
اخلاقی جرات کی تعریف کی۔ خدا کا شکر ادا کیا اور قیلولہ کا خیال چھوڑ کر فرائض کی
طرف متوجہ ہو گئے
"میں نے ایک مرتبہ حضرت عمر فاروقؓ سے عرض کی کہ
آپ لوگوں میں سب سے زیادہ اس بات کے مستحق ہیں کہ لذیذ غذا کھائیں، عمدہ سواری پر
سوار ہوں اور نرم کپڑے پہنیں۔"
حضرت عمرؓ نے یہ سن کر ایک چھڑی اٹھائی اور میرے سر پر دے ماری۔ پھر
فرمایا۔
"اگر تمہارا مقصد یہ ہے کہ اس قسم کی باتیں سنا کر تم
خدا تعالی کا یا میرا قرب حاصل کر سکو گے، یہ خیال اپنے دل سے نکال دو۔ میری رعایا
کی مثال تو اس جماعت کی ہے جو سفر پر چلی۔ سارے لوگوں نے اپنی چیزیں ایک شخص کے
حوالے کر دیں اور اسے اپنی تمام ضرورتیں پوری کرنے کا ذمہ دار ٹھرایا۔ تم بتاؤ کیا
اس شخص کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ اپنے آپ کو دوسروں پر ترجیح دے؟"
میں نے عرض کیا، "نہیں۔"
اس پر آپؓ نے فرمایا۔
"پھر میں اپنے آپ کو دوسرے لوگوں پر کس طرح ترجیح دے سکتا ہوں۔"
دعا ہے کہ اللہ ہمارے
عقل کے اندھےحکمران طبقے کو ہدایت دے۔آمین۔
Warning :The information presented in this web site is not intended as a substitute for medical care. Please talk with your healthcare provider about any information you get from this web site.